دل کے انکار پہ مت سوچ کہ ڈر جاؤں گی
رفتہ رفتہ اسی منکر میں اترجاؤں گی
قطرہ قطرہ جو ٹپکتا ہے ترا غم مجھ میں
میں کسی روز ترے درد سے بھر جاؤں گی
کربلا سے ہے وہ رشتہ جو سکینہ کا ہے
سو دم واپسی رستے میں ہی مر جاؤں گی
گھر سے نکلی تھی گرا کر درو دیوار کو میں
ذہن میں تھا نہ کبھی لوٹ کے گھر جاؤں گی
ان کی آغوش میں اترے گی یہ صدیوں کی تھکن
سر پہ باندھےہوئے جب رنج سفر جاؤں گی