دنیاوی حدود میں سمٹنا چھوڑ دو

Poet: Pari By: Pari, lahore

عشق کرنا ہے تو سوچنا چھوڑ دو
رستے کی تلجیوں کو گننا چھوڑ دو

ہر حد سے آگے نکل جاؤ پھر
دنیاوی حدود میں سمٹنا چھوڑ دو

پاؤں لہولوہان یا دل پارہ پارہ
دل کے بکھرے ٹکڑوں کو چننا چھوڑ دو

آنکھیں مسکرائیں گئی اور لب بھی
محبوب سے اگر گلہ کرنا چھوڑ دو

Rate it:
Views: 364
17 Dec, 2011