دنیا کے اس سفر میں کوئی ہم سفر بھی ہو
گر اشک میرے سے بہے پانی اثر بھی ہو
کوئی تو دیکھنے کو حسیں اب نگر بھی ہو
جاؤں جدھر ہی میں مرا سجنا ادھر بھی ہو
دل میں ہو اس کےخوفِ خدا اور ڈر بھی ہو
میری تو بات کا کبھی اس پر اثر بھی ہو
میرے تو آنے کی اسے شاید خبر بھی ہو
اپنے ہی جیسوں سے کبھی میری ٹکر بھی ہو
مر کے بھی ساتھ ٹوٹے نہ میرا ہو ایسا پھر
شہزاد سامنے میری اس کے قبر بھی ہو