دوستی عشق کی لہر لگتی ہے
ہر تمنا اشکوں کی نہر لگتی ہے
ابھی تم سے صرف نظر ہے ملی
ابھی سے خلوت کیوں زہر لگتی ہے
بزم عشق کے پیکر تو چلے گئے سارے
اب دنیا گہما گہمی کا قہر لگتی ہے
کوئی نہ پہنچا سن کے صدائیں میری
مجھے تو ساری دنیا ہی زہر لگتی ہے
یہ کتنی طویل شب غم تیرے تصور میں
نوید سحر رات کا پچھلا پہر لگتی ہے
کیوں آج مفلسی سے محتاج ہوا ضمیر اتنا
کہ آرزوئے زندگی بھی اک زہر لگتی ہے
یہ سب مسائل پیدا اولاد آدم نے کیے اشتیاق
جو کل تھی بستی وہ آج شہر لگتی ہے۔