اپنی تقدیر آزمانے کو
کوئی سکّہ اچھال دیتا ہے
ہاتھ پھیلا اسی کے آگے وہ
مشکلوں سے نکال دیتا ہے
دوست کہ کر پکارتا ہے مجھے
اور مصیبت میں ڈال دیتا ہے
نیکی کرکے کوئی جتاتا ہے
کوئی دریا میں ڈال دیتا ہے
اسکا کردار داغدار مگر
آئینے کی مثال دیتا ہے
کامیابی پہ یوں نا اتراؤ
وہ عروج و زوال دیتا ہے
زندگی ایک نغمہ ہے جسکو
سر کوئی کوئی تال دیتا ہے