جینے مرنے کی تو صدا ہوتا
طاقِ دل میں اگر پڑا ہوتا
میری دنیا سنوارنے والے
میرے شانوں پہ سر ترا ہوتا
پھول کلیوں کی کیا ضرورت تھی
میری خوشبو سے گھر بسا ہوتا
تیری میری وفاؤں کا ہمدم
تمغہ سینے پہ اب سجا ہوتا
شہرِحسرت کی اب بھی گلیوں میں
کیا ضروری ہے کربلا ہوتا
کھبی ہوتی نہ روشنی کی کمی
آنسوؤں کا اگر دیا ہوتا
شوقِ الفت ہے شعیدہ بازی
وشمہ ایسے نہ یہ کیا ہوتا