دو چار پل ہی ان کے جو گزرے تھے میرے سنگ
وہ میری ساری عمر کی روداد بن گئے
الفت کے امتحان میں جب فیل ہو گئے
رب جانے کس طرح سے ہم استاد بن گئے
لِکّھا ہے میرے بھاگ میں خوشیوں کا بانجھ پن
دنیا کے سارے غم مری اولاد بن گئے
مجبوریوں کے پھندے کچھ ایسے گلے پڑے
ہم اپنی خواہشات کے جلاد بن گئے