دِل کا لٹنا عجب نہیں ہوتا
عشق میں ایسا کب نہیں ہوتا
کیا کہوں کس طرح گذرتی ہے
تو مرے پاس جب نہیں ہوتا
کیوں تمناؤں کے مزاروں پر
کوئی کتبہ نصب نہیں ہوتا
ہم جو ڈوبے تو کچھ وجہ ہوگی
ورنہ کچھ بے سبب نہیں ہوتا
ہیں ازل سے تمہارے شیدائی
ہم سے پاسِ ادب نہیں ہوتا
کوئی بھی چھوٹا کام کرنے سے
کم تو حسب و نسب نہیں ہوتا
چاہے کتنی کڑی بھی منزل ہو
کم تو شوقِ طلب نہیں ہوتا
ہر کسی میں کمی تو ہوتی ہے
کوئی انساں بھی رب نہیں ہوتا
بھول جائیں تمہاری چاہت کو
ہم سے ایسا غضب نہیں ہوتا
بات بے بات یونہی ہنس دینا
پہلے ہوتا تھا ، اب نہیں ہوتا
مفلسوں کو گرا نہ نظروں سے
مفلسی اک لقب نہیں ہوتا