دِل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے
عِشق جب صُحبتِ بُتاں سے رہے
لاکھ سمجھا لِیا بُزرگوں نے
دُورکب ہم طِلِسمِ جاں سے رہے
کب حَسِینوں سے عاشقی نہ رہی
کب نہ ہونٹوں پہ داستاں سے رہے
دِل میں ارمان کُچھ نہیں باقی
اِک قدم آگے ہم زماں سے رہے
دِل میں حسرت کوئی بھی باقی ہو
ایسے جانے سے ہم جہاں سے رہے
یاد ہے اب بھی وہ جگہ ہم کو
جہاں ہم پُہنچے اورجہاں سے رہے
بَن کے فُرقت کے دِن وہ سارے، خَلِش
دِل پہ کندہ ہُوئے نِشاں سے رہے