دھیان خط کا تو میرے بعد میں آیا ھو گا
پھلے تصویر کو سینے سے لگایا ھوگا
میری یادوں نے سرے شام سنایا ھوگا
بھولنے پر بھی مگر چین نہ آیا ھوگا
یاد آتے ھی میری ' اشک بھر آئے ھونگے
ذھن جب اسکے تصور نہایا ھوگا
کبھی ھاتھوں کی لکیریں تو نھیں مٹ سکتی
جان کر اس نے کہاں مجھ کو بھلایا ھوگا
روشنی دامن کہسار میں پھیلی ھوگی
جب کوئی دیپ محبت کا جلایا ھوگا
چھا گئیں ھوں گی سر شام گھٹائیں ہر سو
جھیل پر اسنے جو آنچل کو اڑایا ھوگا
کوئی ھمدم نی ملا راہ وفا میں عارف
اس نے یہ کہہ کر اپنی نگاھوں کو جھکایا ھوگا