دیئے گلوں کے جلے پھر، آمدِ بہار کے ساتھ
شگوفے دل کے کھلے امیدِ وصلِ یار کیساتھ
دلِ حزیں نے دکھائے وہ دن ، خدا کی پناہ
نہ شب سکوں سے،کٹا کوئی دن قرار کیساتھ
ہمیں گلہ بھی نہیں تیری بے رخی کا , کبھی
کریں گے شکوے گلے اپنے کرد گار کے ساتھ
وفا تو شیوہ نہیں یوں بھی مہ رخوں کا ، کوئی
نہیں جوازِ ترحّم ،مرے صیاد کا شکار کے ساتھ
شیوخِ شہر سے کہہ دو یہ میکدہ ہے یہاں
قیودِ حفظِ مراتب کہاں ، خمار کے ساتھ
مثالِ یوسفِ کنعاں ، ہمیں برادرانِ عزیز
سپردِ چاہ ، کریں گے اُسی وقار کے ساتھ
ہمیں بھی چین نہیں تیری نفرتوں کے بغیر
تمہیں بھی اُنس سا ہونے لگا ہے پیار کے ساتھ
عنایت اُن کی نظر میں عجب کرامت تھی
کہ دل کو چین بھی ملتا رہا غبار کے ساتھ