دیارِ عشق سے یوں تیرگی نکل جائے
جگر کی آگ سے دل کا چراغ جل جائے
نگاہ ِ فقر میں تصویرِ دو جہاں بدلے
جہاں میں ایک بھی ذرہ اگر بدل جائے
غریقِ بحر ہوئے سیلِ خود نمائی میں
بھنور میں ڈوبتی کشتی کہاں سنبھل جائے
قریبِ مرگ ہوا دل جو مبتلائے ہوس
شبابِ گل پہ کبھی خار پہ مچل جائے
یہ آرزو ہے تجھے دیکھیں بے حجاب مگر
ڈریں کہ وقت کا آئینہ نہ پگھل جائے
یہ احتیاط ہے لازم چمن کے پروردو
گلاب کوئی نہ پاؤں تلے مسل جائے
کرو جو خود کو فراموش تو خیال رہے
غضب کی چال نہ ظالم زمانہ چل جائے
چمک اٹھے گا سحر بن کے خونِ دل درویش
یہ بے چراغ شبِ خوں چکاں تو ڈھل جائے