دیوار بن گئے تھے جو موسم بدل گئے
آ جائیے کہ شام کے سائے بھی ڈھل گئے
آتش فشاں پہاڑ تھے لاوے نگل گئے
شاطر مزاج لوگ نئی چال چل گئے
حالانکہ بات سچ ہی کہی تھی ضمیر نے
لیکن بہت ہی تلخ تھے الفاظ کھل گئے
صبح شب سیاہ بڑے طمطراق سے
سورج اگا رہی تھی مگر ہاتھ جل گئے
آئی شب سیاہ ضیا باریوں کے ساتھ
شکر خدا کہ اپنے برے دن بھی ٹل گئے
جیسے کسی کا صور سرافیل پھونکنا
دنیائے درد کانپ اٹھی دل دہل گئے
اس درجہ پائیدار سفینہ تھا عزم کا
طوفان آئے اور ارادے بدل گئے
دیکھا مذاق اڑانے لگیں پھر بلندیاں
ہم پھر افقؔ حدود سے آگے نکل گئے