دیوانگی میں اسکو سلام صبح و شام لکھتا رہا
موسموں کے ہر ورق پہ اس کو پیغام لکھتا رہا
وہ میرے جنوں کی معراج کو جان لے اسی لیے
میں شہر بھر کی دیواروں پہ اس کا نام لکھتا رہا
اس کی آرزو تھی کہ یہ بھول جاؤں اسکو میں
وہ راستہ بدلتا رہا اور میں کہرام لکھتا رہا
مہ خانے میں شور تھا ساقی کے پیمانے کا مگر
لیکن میں اسکی نظروں کو ہر لمحے جام لکھتا رہا
مزاج ہے یہ عشق کا ظلم کو ہنس کر سہہ سکیں
وہ انتہا کرتا رہا اور میں غلام لکھتا رہا