دیوانہ سا اک لڑکا
اک حسیں پری پہ مرتا تھا
اس کی مانگ بھرنے کو
آکاش سے تارے توڑا کرتا تھا
سپنوں کی حسیں وادی میں
ہر پل اسے پکارا کرتا تھا
اداس سی اس کی اداؤں کو
شوخ و چنچل سی نگاہوں کو
اپنے پیار سے چوما کرتا تھا
رم جھم کرتی برساتوں میں
بکھری بکھری چاندنی راتوں میں
ہر دم اسے ڈھونڈا کرتا تھا
اس سے ملنے کی خواہش میں
نگر نگر گھوما کرتا تھا
کسی طرح اس سے ملاقات ہو
دن ہو چاہے سیاہ رات ہو
اک پل ہی سہی کچھ تو بات ہو
رات بھر بستر پر کروٹ بدلتے
بس یہی سوچا کرتا تھا
دیوانہ سا اک لڑکا