میں نے سب عقیدت کے
پھول تجھ پہ وار دِ یے
کتنے سال جیون کے
چاہ میں گزار دِیے
ہر خوشی کو بھول گئی
ہر کمی گوارا کی
لوگ پیار کرتے ہیں
میں نے تیری پوجا کی
دیوتاؤں کا لیکن اعتبار کیا کرنا
وہ جو دل سے پتھر ہوں
اُن سے پیار کیا کرنا
رشتۂ محبت کی تار بُن نہیں سکتے
داسیاں تو چنتے ہیں
ساتھ چُن نہیں سکتے
غم مرا جُدا تو نہ تھا
بس یہی اداسی تھی
تم بھی ایک پتھر تھے
میں بھی ایک داسی تھی
جو زباں ہے چاہت کی
وہ تُمہیں نہیں آتی
جو تمہاری فطرت ہے
وہ بدل نہیں پاتی
وعدۂ محبت کی ابتلا سے ڈرتے ہو
مان لو کہ بزدل ہو
تم وفا سے ڈرتے ہو
پتھروں کی چوکھٹ پر
زندگی بھی وار گئی
آدمی ہوئےنہ تم
دیوتا میں ہار گئی