دیکھا نہیں تجھ سا شعلہ بیاں اس جہاں میں
وہ مزا کہاں جو ہے تیری زباں میں
خاک آلودہ سا اے باد صبا میں ہوں پھول
اب رکھا ہی کیا اس جھوٹی آن میں
پتھر نہ سمجھ اس دل کو یہ انمول ہے بہت
جو اس میں ہے وہ بات نہیں یاقود مرجان میں
غافل کہاں رہے سکتا ہوں تجھ سے میں
جھکی جا رہی ہے یہ جبیں بھی تیری شان میں
سمجھا رہا ہوں تو چپ چاپ بیٹھ جا
پر کچھ سمجھ نہیں ہے اس دل نادان میں
آئی ہے دیکھ کر تجھےچہرے پےرونق پھر اس طرح
جلا دیا ہو چراغ جسے کیسی نے اجڑے مکان میں
یہ گناہ ہوا تیرے دوست بن گے
لگا لیا روک ننھی سی جان میں
کیا ہوا قلزم کیوں چاک کریباں اس نے کر لیا
کیا کہہ گئی نسیم صحر گل کے کان میں