دیکھو میں ہار گئی
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaدنیا نے کتنے لگائے تھے
الزام مجھ پر لیکن
تمہارے اک الزام پر
دیکھو میں ہار گئی
وہ خوابوں کے محل تھے
جہاں میں رہتی تھی کبھی
میں خوابوں سے
اب حقیقت میں آ گئی
دیکھو میں ہار گئی
میں زمانے کو ُبرا کیوں کہوں
مجھے پاگل تم نے بھی تو کہہ دیا
دنیا کے ڈھیروں پتھروں میں
اک پتھر تم نے بھی تو جب ُاٹھا لیا
میرے وجود کو ہی جب
جھوٹا ٹہرا دیا تو پھر
دیکھو میں ہار گئی
جانتے ہو کیا ?
میری دعایں بے لوث تھی
میری محبت پاک تھی
مجھ سے میری سچائی کا
ثبوت ہی جب تم نے مانگ لیا
تمہارے لبوں سے وہ سوال سنتے ہی
میں نے خود کو یہ جواب دیا
لکی ! دیکھو میں ہار گئی
میں کس حال میں رہتی ہوں
یہ میرا قصور نہیں
میری غربت نے میرا مذاق بنا دیا
مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا
میں گناہگار ہوں لیکن کوئی گناہ نہیں
دیکھو میں ہار گئی
محبت جرم تھا میرا لیکن
پھانسی میری سزا نہیں
لیکن تمہارے قلم توڑتے ہی
دیکھو میں ہار گئی
شاید سچ ہی کہا تھا سب نے
کہ تیرا محبوب وفادار نہیں
وہ پسند کرتا ہے تجھے
لیکن سچا پیار نہیں
لیکن میں نے سب کو کہاں
میں ابھی مانتی اپنی ہار نہیں
لیکن آج اک پل میں
دیکھو میں ہار گئی
نوٹ: ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے اپنا سب کھو دیا تھا کسی کو پانے کے لیے لیکن جب ُاس انسان نے لڑکی کی محبت پر شک کیا تو وہ لڑکی ہار گئی
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






