دیکھ زمانے سے کوئی شکایت نہیں
ہر موج کی قسمت ساحل تو نہیں
لطف ہجر کا کوئی ثانی ہی نہیں
سرود_منزل بھی سرود_آخر تو نہیں
تشنگی جاں بلب ہو بھی جائےاگر
سمندر بھی پیاس کا حاصل تو نہیں
بےچینی در و دیوار_دل میں قید ہے
اس زنداں میں دروازە بھی تو نہیں
روٹھ جاتی ہے طبعیت خود سے بھی
تیرے مذاج سے کوئی گلہ تو نہیں
عشق میں انسان کسی کام کا نہیں
ورنہ دام زلف سے کوئی مرتا تو نہیں
شب فراق کہیں اور چل میرے ساتھ
ہر جگہ ایسا گھور اندھیرا تو نہیں