دیکھ کر ہم کو جو شاداب ہوا کرتے ہیں
صرف وہ اپنے ہی احباب ہوا کرتے ہیں
اے گھٹا،باد صبا،شوخ ہوا چنچل سی
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
یہ جو ہر بات پہ میں میں، یہ تکبر،یہ غرور
صرف بربادی کے اسباب ہوا کرتے ہیں
جو نظر آتے ہیں خاموش طبیعت ہم کو
انکے اندر کئی سیلاب ہوا کرتے ہیں
عزت ماب، محترم ،جناب علی،
جی حضوری کے یہ القاب ہوا کرتے ہیں
بن ترے ایک بھی لمحہ نہیں جی سکتے ہیں
ہم وہ عاشق ہیں جو بے تاب ہوا کرتے ہیں
(طرحی مصرح،باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں)