دیکھ کہ ترے بن جینے کا تسلسُل کتنا خراب ہے
میرے سویروں پے اندھیروں کے عذاب ہے
میرے گلشن میں ہیں بے رنگ سوکھے گلاب ہے
دیکھ کہ ترے بن جینے کا تسلسُل کتنا خراب ہے
اشکو ں کا سیراب روک رکھا ہے میں نے پلکوں پیچھے
مری سسکیوں کے اُوپر جھوٹی ہنسی کے نقاب ہے
پوچھتے ہیں یہ درودیوار کیوں جُدا ہوئے وہ
اُن کے کسی سوال کا نہ مرے پاس جواب ہے
ترے جانے کے بعد ہے ہر سبستاں شام اپنی
تری تصویر آگے اور ہاتھوں میں شراب ہے
مسکرانا سکھایا جسے میں نے بے حد رُلا دیااُس نے
میرے احسانوں کے یہ کیسے احساب ہے
جو دیکھ کے ہریالی میرے چمن کی جلتے تھے نہا ل
وہ گلشن آج کل میرے خون سے شاداب ہے