ذرا سا روٹھ جانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
حقیقت کو چھپانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
جہاں پر حسن کی آوارگی نے رکھے تھے پاؤں
وہاں پلکیں بچھانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
جسی دیکھے بنا دھڑکن پہ اک انکار رہتا ہے
اسے یونہی ستانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
ابھی تک ناشناسائی ہے جن بیتاب آنکھوں میں
انہیں اپنا بنانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
کبھی ان خواہشوں پر بھی کوئی بند باندھ پایا ہے؟
اسے اس سے چرانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
پڑے ہیں استراحت میں جو لمحے دل کے پہلو میں
انہیں اب گدگدانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
ہواؤں سے چکور اک کہہ رہی تھی شوخ لہجے میں
ذرا چندا کو پانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
ذرا ٹھہرو، کہ زلفوں کی گھنیری شام کی خاطر
ستارے توڑ لانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو
ابھی بھی ان کہی کی دھند میں لپٹے ہیں جو جذبے
انہیں ہونٹوں پہ لانے کی مجھے کوشش تو کرنے دو