یہ کس نے تجھ کو بتایا ہے جاں سراب ہوں میں
ذرا سا منہ لگا مجھ کو ارے چناب ہوں میں
نہ یاد کر مجھے گزرے ہوئے تو وقت کی طرح
کہ مجھ کو روز پڑھو درد کا نصاب ہوں میں
اسے تو اشکِ ندامت سمجھ کے چھوڑ نہ جا
کسی کی یاد میں بس بہہ رہا ہوں آب ہوں میں
جسے بھی یاد میں آیا ہوں مضطرب پایا
مجھے کوئی تو بتا ئے کہ اضطراب ہوں میں
جو بھی ہے آیا مجھے دیکھ کر چلا گیا ہے
کہ جیسے ٹوٹا ہوا سیف کوئی خواب ہوں میں