ذرا سن
گھڑی دو گھڑی آ بیٹھ
کہ تیری آنکھوں سے میں
اپنی پیاسی آنکھوں کے صحرا کو
ذرا سیراب تو کر لوں
گھڑی دو گھڑی آ بیٹھ تو سہی
کہ میں تیرے قرب کی خوشبو سے
اپنی سسکتی سانسوں کو مہکا تو لوں
ذرا سن ۔
یہاں بیٹھ میرے پہلو میں
کہ چاند کب سے بادلوں کے پیچھے
شرما کر چھپا نہیں ہے
میرے جاناں ۔۔۔ذرا غور سے سن
وقت کو آواز دے کہ تھم جائے
اس کے کچھ پل چرا کر
ہم بانٹ لیں آپس میں ،پھر
کچھ پل تم کچھ ہم مٹھی میں بند کر کے بیٹھے رہیں پہروں
میرے ہمدم ۔۔۔کچھ تو بول کہ مجھ سے باتیں کر
کہ میں دیکھنا چاہتی ہوں اپنے اندھیروں میں
تیرے الفاظ کے جگنو
ذرا مسکرا ۔۔۔کہ تتلی کے نازک پنکھوں کی طرح
رنگ رونما ہوں تیرے چہرے پر
کہ جن کو چھو کر میں اپنی پھیکی دنیا کو ذرا رنگین سا کر لوں
اچھا سن میرے ہمدم
ذرا دیر کو اپنے ہونٹ میرے ماتھے پر رکھ دے
کہ اس پل کی حدت سے میں پگھل جاؤں ، تیری بانہوں میں بکھر جاؤں
جان جاناں ذرا سن تو سہی
کہ اپنی آنکھیں میرے نام تو لکھ دے
کہ مدتوں سے اس آس میں بیٹھی ہوں کہ یہ سلطنتِ اعلیٰ کبھی میری ہو جانے
میرے جاناں ذرا سن ، کبھی سن تو سہی
کہ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں
اپنے آپ سے بھی کٹ کر
تیری بانہوں میں رہنا چاہتی ہوں
کبھی سن تو سہی میری باتیں
جو انکہی رکھی ہیں دل کے تہہ خانوں میں
کبھی جھانک تو سہی میرے اندر
کہ مجھ میں تجھ کو
بس تو ہی ملے گا
ہر طرف
حد ِ نگاہ
لا محدود
بے پناہ