جب بھی اس سے کہا تھوڑا ہی سہی مگر مسکرادو
ذرا کائنات کو اور بھی حسین بنا دو
جب بھی اس سے کہا ذرا پلکیں اٹھا دو
کچھ تو جینا ہمیں بھی سِکھا دو
دل سو رہا ہے جانے کب سے اسے ہی جگادو
حسن کی خیرات ہی سہی ہمارے کشکول میں ڈال دو
شمع بن جاؤ تم پروانہ ہمیں بنا دو
ادھوری ہے شام اسے مکمل بنادو
بے خواب سی ہیں آنکھیں انہیں خواب ہی دکھا دو
اماوس کی رات ہے ذرا مسکرا کےاسے دلہن بنا دو
خان کب سے ہے ادھورا اسے خوش قسمت بنادو