راز لیلاوں کے غزلوں میں یوں گائے ہم نے
قیس کے دشت سے دیوانے بچائے ہم نے
عمر میں چھوٹی ہے دس سال وہ مجھ سے لیکن
خواب اک دوسرے کے پھر بھی سجائے ہم نے
شہرِ الفت کے تقاضوں کا بھرم رکھا ہے
تبھی دہلیز پہ آنسو نہ گرائے ہم نے
قیس جن مشکلوں میں دشت میں جا بیٹھا تھا
فرض بیٹوں کے بھی اس میں نہ بھلائے ہم نے
اپنی الفت کی گواہی کو یہی کافی ہے
دیپ امکاں کے ابھی تک نہ بجھائے ہم نے
رکھ دیا سارا سخن پاؤں میں ہم نے اس کے
اپنے شعروں پہ سنی یونہی وہ ہائے ہم نے