راستے میں جو ملا تھا دو گھڑی کے واسطے
ہو گیا وہ شخص لازم زندگی کےواسطے
جسم کی اندھی گلی سے اک قدم باہر ہوں میں
اب نہ بھٹکوں گا کہیں بھی روشنی کےواسطے
آسماں سے بھی اگر اترا تو ہوگا آدمی
ہے مسیحا آدمی ہی آدمی کے واسطے
آ ملوں گا تجھ سے یہ دیوار دنیا پھاندکر
اور اک دل مانگ لوں گا دل لگی کے واسطے
یہ محبت کا سفر ہے ایک دستور عمل
لفظ تو کافی نہیں اس نوکری کےواسطے
اس جفا پیشہ کو کوئی دل کہاں درکار تھا
اک کھلونا چاہیے تھا دل لگی کےواسطے
تجھ سے میں کیسے کہوں کتنی ضروری ہو گئی
ایک تیری مسکراہٹ ،زندگی کے واسطے
کچھ تو اپنوں کے لیے بھی بےخبرمحفوظ رکھ
مت لٹا، ساری محبت اجنبی کے واسطے
ایک ہو جائیں کسی لمحے میں ہم دونوں کے دل
جی رہا ہوں میں فقط اس اک گھڑی کے واسطے
دل کے پتھر کب بنا سکتے ہیں چاہت کے محل
دل بھی شیشہ چاہیے شیشہ گری کے واسطے
ناچتے گاتے رضا نے رکھ دیا پٹٹری پہ سر
گویا پیدا ہی ہوا تھا خود کشی کے واسطے