راہوں میں اک چراغ جلانا پڑا مجھے
پھر آسماں سے چاند وہ لانا پڑا مجھے
تنہائیوں کا خوف تھا لیکن یقین کر
تنہائیوں سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
جو دھوپ دھوپ ساتھ مرے چل نہیں سکا
اک اُس کو چھوڑتے بھی زمانا لگا مجھے
راہِ وفا میں خون کے چھینٹے تھے اس قدر
ہر زخم آنکھ میں ہی چھپانا پڑا مجھے
فرہنگِ دل پہ نقش تھے لمحاتِ زندگی
آواز بن کے پیار کی آنا پڑا مجھے
پہلے کہ اس سے آنکھ کا آئینہ ٹوٹتا
داغِ فراق وشمہ دکھانا پڑا مجھے