راہیں تھیں سنگ لاخ,شناسائی بھی نہ تھی
اس پر ستم کہ مجھ میں توانائی بھی نہ تھی
کس فرقے میں شمار مری ذات ہو یہاں
ظالم اگر نہ تھی تو تماشائی بھی نہ تھی
آواز آ رہی تھی جو دل کے مقام سے
ماتم اگر نہیں تو یہ شہنائی بھی نہ تھی
کیسے نہ جانے غم کی تمازت میں بچ گئی
لڑکی گلاب سی گل صحرائی بھی نہ تھی
آخر مسل ہی دی گئی معصوم سی کلی
بچپن پہ اپنے وہ ابھی اترائی بھی نہ تھی
مانا کہ زہد حضرت یوسف نہ مجھ میں تھا
نوشی ! مگر دلیری زلیخائی بھی نہ تھی۔