ذرہ ہے اک حقیر سا وسعت کے شوق میں
معصوم سا جو دل ہے محبت کے شوق میں
اک روز حسن ناز کی کھل جائے گی گتھی
پھرتا ہے ولولہ ابھی حیرت کے شوق میں
سرکا جو لہر وقت سے مفلس کا دوپٹہ
سارا جہاں امڈ پڑا قیمت کے شوق میں
پھر یوں ہوا کہ دشت بھی بھرتا چلا گیا
بیٹھا ہوا تھا میں جہاں خلوت کے شوق میں
کوئی نگاہ خاص سے لمحوں میں پا گیا
پھرتے ہیں عمر بھر کئی قربت کے شوق میں
کل سہمے پرندوں سے یہ کہتی تھیں چکوریں
کھولو تو سہی پر کسی رفعت کے شوق میں
کیا خوب ایک راز بتایا فقیر نے
غم کھائیوں کا رکھتے ہیں پربت کے شوق میں
دیکھے ہیں اسی وقت نے ایسے بھی فراعین
بے نام ہو چکے ہیں جو ہیبت کے شوق میں
غم ہے کہ پھر بھی تشنہ رہا ذوق بندگی
میں کھو چکا ہوں ذات عبادت کے شوق میں
انکی ریاضتوں میں کہاں وصل کی لذت
جو سجدہ ریز ہیں کسی جنت کے شوق میں
راہ جنوں کی تلخیاں،منزل پہ تیرا حسن
میں پی گیا ہوں زہر حلاوت کے شوق میں