پلکوں سے پلکیں میں ملاتا نہیں
جب سے آنکھ لگی آنکھ لگاتا نہیں
گناہ ہے اگر عشق تو یہ بھی سچ ہے عالم
بنا عشق کے کوئی رجناب پاتا نہیں
مُدت سے جس کے انتظار میں بیٹھا ہوں
وہ شحض غلطی سے بھی اِدھر آتا نہیں
غم مجھے بھی ہے اگرچہ محبت کا
مگر اب میں آنسو یُوں بہاتا نہیں
جلتا ہے دل شام وسحر میرا اب
اِس لئے بھی چراغ جلاتا نہیں
دردِ داستاں لکھتا ضرور ہوں مگر
بے درد لوگوں کو سُناتا نہیں
حالِ دل میرا مت پوچھو مجھ سے
میں اپنے سبب کسی کو رُلاتا نہیں
جانا ہے چھوڑ کے تو شوق سے جائو
کسی کے جانے سے کوئی مر جاتا نہیں
گِر جائے جو پھول شاخ سے کبھو
راہگزر بھی اُسے پھر اُٹھاتا نہیں
جب سے ہوئے ہیں ناکام محبت میں
قسمت کو اب میں آزماتا نہیں
بھول گئے جو اول و آخر سب
دل اُس کو مگر بھلاتا نہیں
توڑتے ہیں دل اگرچہ بے وفا لوگ
ہنر یہ وفادار کو کوئی سکھاتا نہیں
نہال ہوئے ہو جُدا تم جس روز سے
کومل گلاب کوئی میرے لئے لاتا نہیں