رسمَ جنون عشق کی میں انتہا کروں
خود کو مگر میں کیسے خود سے جَدا کروں
غمَ عشق بھی ہے اور غمَ روزگار بھی
کوئی ایک روگ ہو تو اَس کی دوا کروں
جس کو بھی دیکھتا ہوں وہ محوخواب ہے
نا بینا اس شہر میں کسے رہنما کروں
کسی ایک در سے بھی تو مجھ کو ملا نہ فیض
کتنے بتوں کو آخر اپنا خدا کروں