سزا ملی یہ مجھے تجھ سے رشتہء دل کی
کہ عمر بھر نہ ہوئی طے ، راہ منزل کی
غُبارِ راہ تو کیا ہم کو بدگماں کرتا
مگر نظر وہ کسی مہربان قاتل کی
خدا کرے نہ تجھے , تجھ سا کوئی شخص ملے
کہ سینہ سنگ سا ، اور خُو ترے تجاہل کی
نثار اُن کے جنہیں قُرب تیرا حاصل ہے
عطا ہمیں تو ہوئی , توقیر بس تغافل کی
فریب کھاتا گیا ولے دل ، کہ بدگماں نہ ہوا
بھلا سکا نہ وہ تری ، اُلفتیں اوائل کی
خُدا کرے ترا اقبال ہو بلند بہت
مقام ایسا ، تمنا ہو جسکے حاصل کی