رنجش
Poet: سعدیہ اعجاز By: Sadia Ijaz Hussain, Lahore,University of Educationکس رنجش میں تھے ہم ؟ اسی بات سے انجان تھے
رہے سوگوار رویوں پر اور دل سے بہت بیزار تھے
تھی حماقتیں یا ذوقِ دل ان تبصروں سے پریشان تھے
جو آئینہ دیکھا نہیں اُسکے عَکس پر سوگوار تھے
تھی حسرتوں کی کشتیاں اور زوقِ قلم کا جب بھنور چلا
کیا بتاؤں؟ گردشِ ایام نے دل کے گوشے پر کیسے جَبر کیا
کرتے کس پر ملال ہم !کبھی حسرتوں سے قتل ہوۓ
کبھی آئنیوں کے ڈھونگ میں! ہم چاشنی سے قلم ہوۓ
تھا ملال کیا؟ گمان کیا؟ قیاس کیا ؟ خواب کیا؟
اِک مسافر کی سی تھی حالت! اُسی حالت میں محوِ خیال تھے
کتنے لوگوں کے گرد تھے! کتنے لوگوں سے انجان تھے ؟
کتنے رشتوں سے جُڑے تھے ہم ! کتنے لوگوں کو ہم جانتے ؟
کہیں دشت کی تھی گرمیاں! کہیں اکتوبر کی ہوا چلی
جو برگ ابھی کِھلے نہ تھے! وہی درخت پر پریشان تھے
ہوا کے تلاطم سے جو پتوں کی زندگی اُجڑ گئی
وہیں نئے برگ و شجر کِھلنے کو بہار کی تلاش میں تھے
یہ زندگی کا مرحلہ کہیں دم نہ نکلا کہیں آنکھ کُھلی
کہیں آرزو کی ہوا چلی! کہیں سب خاکِ فنا ہوا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






