رنج میں آجائے سحر ایسا کوئی کمال نہیں دیکھا
لگتا ہے جنون عشق کا میں نے جمال نہیں دیکھا
کہتے ہیں لوگ روشنی اُدھار ملتی ہے مگر
میں چاند اور سورج کا وِصال نہیں دیکھا
سوچا تھا لوٹیں گے تب ہی دیکھ لیں گے
عمر رسیدہ ہونے تک اپنا حال نہیں دیکھا
تحریریں تو ہم نے تمام پڑہی ہیں لیکن
عمل کے پیراہن میں کہیں استقلال نہیں دیکھا
ہوا میں خوابوں کے محل جُڑ جاتے ہیں
کس نے کہا خیالوں کا مجال نہیں دیکھا
گناہ کروں بھی تو چھپاؤں کہاں سنتوشؔ
اپنے خون جگر میں ایسا خال نہیں دیکھا