گل و گلزار کھلا دو
سازوں کو صدا دو
مجھے دیکر جام الفت
حلق تک پلا دو
پہلو میں ہو کر جانی
اس دنیا کو دکھا دو
تم مرے چہار اور
رنگ ہی رنگ سجا دو
اپنے لبوں کا رس
میرے ہونٹوں میں ملا دو
جو رخصت ہو گئے
ان کا بدلہ چکا دو
حال و فردا میں ہو مست
ماضی کو ناصر بھلا دو