روز شام کو اُداسیاں بڑھ جاتی ہیں
دل پے میرے نیا زخم کر جاتی ہیں
اِس قدر فریب ملے میری وفائوں کو
اب وفائیں وفا کے نام سے ڈر جاتی ہیں
میرے ہوتے ہوئے میری قدر نہ پائی اُس نے
سُنا ہے اب وہ روز میرے گھر جاتی ہیں
بتاتا ہے اِک فرشتی مجھے روز یہی باتیں
اِک حسین لڑکی تیری قبر پر آتی ہیں
رو پڑتی تھی میری آنکھ میں آنسو دیکھ کر
وہ پل یاد آتے ہی آنکھ بھر جاتی ہیں
عقلیں حیران ہے یا میرے رب
زندگیاں کہاں سے آ کے کس نگر جاتی ہیں
میرے ہم قلم نگاروں صرف اتنا بتا دو نہال کو
کس کی کمی انسان کو شاعر کر جاتی ہیں