روز مرہ نت نئے حادثہ ہو رونما
چال ہو چالاک، ہشیار، پھرتیلا پنا
ایک جانب بھوک افلاس، یہ فاقہ کشی
تو مخالف سمت کیسا رویہ ہے بپا
جب فضا آواز سے یاں گرجتی خوب ہی
شہر میں ہلچل مچے، راستہ اٹتا ہوا
توڑ اپنی بھی خموشی کبھی موقع ملے
راۓ کا حق پھر کیوں حاصل بھی کرتا تو گیا
پھول گلشن میں تبسم کئے کیسے کھلیں
درس فرحت سے اجاگر چمن ہونے لگا
سب ہی ناصر اب تفکر یہاں دشوار بھی
حسن ظن، تدبیر تھوڑی نرالی پر وفا