رُوح کے اس غبار سے اپنا بدن اتار کر
جان بھی دل بھی وار کر، کس نے کہا تھا پیار کر
کیسے تھمے کسک نہاں، ٹھہرے تو کیسے کربِ جاں
جاؤں تو میں بھلا کہاں، بازی ء عشق ہار کر
میں کہ غریقِ تُو ہُوا، پھر بھی نہ سُرخرُو ہُوا
دل کہ لہُو لہُو ہُوا، آنکھ بھی خُون بار کر
زعمِ خلوص تھا عبث، دل پہ کہاں تھی دسترس
پلٹی تو بازگشت بس، دیکھا تجھے پُکار کر
اُن کو سکوں ملے اگر، ہو کے جہاں سے بے خبر
خاک کو سرمیں ڈال کر، کھال بھی تارتارکر
لمحہ بہ لمحہ امتحاں، عمر بہ عمر بے نشاں
ساری حیات رائیگاں، چند ہی پل شمار کر
عشق مرا امام ہے، میرا جسے سلام ہے
عرضِ دلِ غلام ہے، اس کو شہیدِ دار کر
چاہے نہ دے قرار تُو، بخش نہ اعتبار تُو
عُمر نہ کر نثار تُو، ایک گھڑی نثار کر
شمسِ طلب نہیں ڈھلا، دشتِ غرض میں دل جلا
کیسے تجھے کہوں بھلا، کچھ تو دعا حصار کر
عشق کا راگ الاپ کر، جذب کی آگ تاپ کر
صورتِ وصل چھاپ کر، ہجر کو اختیار کر
ہونٹوں پہ بے زبانیاں، آنکھوں میں بدگمانیاں
اپنی یہ مہربانیاں مجھ پہ نہ بار بار کر
دردکی ہے نظر ابھی، دُور ہے خواب در ابھی
نجم شمار کر ابھی، نیند کا انتظار کر
حسنِ دمِ بہار کیوں، زینتِ زلفِ تار کیوں
نذرِ حسیں دیار کیوں، وَرۡد سرِ مزار کر