رُوٹھی تقدیر پھر منا لی ہے
عشق صاحب سے اب دعا لی ہے
میں نے آنکھوں کے کیمرے سے تری
آج تصویر پھر بنا لی ہے
ہجر نے چھین لی ہے بینائی
درد نے زندگی چُرا لی ہے
رنگ گھولوں گی طشتری میں ابھی
وصل تیرا ابھی خیالی ہے
میں نے گلشن کے پھول سے مسکاں
اور کلیوں سے کچھ حیا لی ہے
اُس کی یادوں نے آ کے پلکوں پر
ایک دیوار سی اٹھا لی ہے
وشمہ میں نے بھی بتکدے میں ترے
اپنی تصویر اک لگا لی ہے