رکھ کے تصویر سامنے تری غزل لکھتا ہوں،
تبی تو لوگ کہتے ہیں بہتر آج کل لکھتا ہوں،
دل جُھوم اُٹھتا ہے دل گانے لگتا ہے میرا
جب باتوں میں تری آنکھ کا کاجل لکھتا ہوں،
ہاتھوں میں پکڑا ہوا گلاب جو تصویر ہے تری
بس اُس کو دیکھ کے پل پل لکھتا ہوں،
رخسار ترے ہائے بال ترے ہائے کیا چیز ہے
زلف تری کو میں ساون کا بادل لکھتا ہوں،
دیکھتا ہوں جب تصویر تری میں میری جاناں!
خیالوں میں جو ہوتی ہے وہی ہلچل لکھتا ہوں،
ساری رات جو مجھے سونے نہیں دیتی تری
پیروں کی بجتی ہوتی پائل لکھتا ہوں،
نہال ترا نام تو جانے نہ مگر اے شاہِ حُسن
غزلوں میں تجھے میں پَری کومل لکھتا ہوں،