رہبر خود ہی اپنی راہ پھٹکتا ہے کبھی ادھر کبھی ادھر چلتا ہے ہوگیا ہے لالہ زار کو کیا خود بخود آج بھلا ہر گل میں اک شعلہ سا ہائے بھڑکتا ہے ہاتھ اٹھا کے جو انگڑائی لیتا ہے یارا ادھر خم ان کا نکلتا ہے ادھر دم ہمارا نکلتا ہے