راتوں کو جاگنے کا تقاضہ نہ کر ابھی
میری طرح ابھی سے اندھیرا نہ کر ابھی
خود کو بچا کے چلتی رہی میں بھی عمر بھر
آیا ہے ایک ایسا نظارہ نہ کر ابھی
رہنے لگی ہے اب مری آنکھوں میں روشنی
جیسے کوئی چمکتا ستارہ نہ کر ابھی
آنکھوں کے بعد جب یہ مرا دل بجھ گیا
اشکوں کا بہہ گیا کوئی دھارا نہ کر ابھی
سورج زمیں سے آسماں سے چاند آگیا
جب روشنی کو میں نے پکارا نہ کر ابھی
ہر سمت ہے بہارمری رہگزر میں آج
خوشبو کا زندگی میں اندھیرا نہ کر ابھی
پھیلے ہیں اس قدر تری یادوں کے سلسلے
مت چھیڑ مجھ کو آج کہ گریہ نہ کر ابھی
ڈھلتے ہی شام یاد کی وہ آندھیوں کے ساتھ
شاہد کہ آ ہی جائے اندھیرا نہ کر ابھی
جسکے لبوں پہ پھر کبھی غنچے نہیں کھلے
وشمہ کو مار ڈال تو سایہ نہ کر ابھی