رہینِ حسرت و حرمان و یاس میں بھی ہوا
وہ بے مزا تو ہوا، بد حواس میں بھی ہوا
کبھی کبھی مجھے دریا نے تشنگی بخشی
کبھی کبھی کسی صحرا کی پیاس میں بھی ہوا
تلا شنا ! جو فراغت ملے جہاں سے تمہیں
پکارنا ! جو کہیں آس پاس میں بھی ہوا
میرے لیے نہ کوئی آنکھ اشک بار ہوئی
تیرے لیے تو زمانے اداس میں بھی ہوا
وفا کے روپ میں ملتی رہی جفا مجھ کو
یوں دوستوں کا طبیعت شناس میں بھی ہوا
میری طرح سے شکارِ ستم ہوا تو بھی
تِیری طرح سے دریدہ لباس میں بھی ہوا
سخن سخن تیری یادوں نے تازگی بخشی
قدم قدم تیرے گلشن کی باس میں بھی ہوا
ملے جو سارے زمانے کے غم مجھے عارف
کچھ اس طرح سے حقیقت شناس میں بھی ہوا