ہم التزام کے عادی تھے آشنائی میں بھی
سو لطف آیا نہ دل کو تری رسائی میں بھی
وفا کے نام پہ ہم نے تو قید ہی کاٹی
کہ ایک ضبطِ مسلسل رہا جدائی میں بھی
میں دل کی انگلی کو تھامے خموش چلتا رہا
وہ لین دین کا قائل تھا آشنائی میں بھی
میں اپنے درد کی تشہیر کرتا رہتا ہوں
کہ ایک طرزفغاں ہے یہ بے نوائی میں بھی
بس ایک بار اسے پیار سے کوئی دیکھے
رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی
ندامتوں میں گرا ہوں جھکا سا رہتا ہوں
کبھی تھا مجھ کو بہت زعم پارسائی میں بھی
وہ چھوڑ جائے مگر اس کو کوئی سمجھائے
کوئی سلیقہ تو ہوتا ہے بے وفائی میں بھی