سینے میں میرے درد ہے کیسے بیاں کروں
کیسے تمہارے سامنے دل کو عیاں کروں
لکھی ہیں میں نے شعروں میں زندہ کہانیاں
اس کے سوا کیا میں رقم داستاں کروں
میں نے صعوبتوں میں گزاری ہے زندگی
تقسیم اپنے درد کو دلبر کہاں کروں
ہو گا نہ ختم آج مرے درد کا سفر
دریا کو اپنی آنکھ سے ہر دم رواں کروں
ایسا نہ ہوکہ خواب ہی بن جائے زندگی
ایسا نہ ہو کہ خواب ہی خود کو گماں کروں
دکھ اتنے گہرے روح میں زخموں کے ہو گئے
زخموں کو چیر چیر کے ہر دم جواں کروں
جو کل سماج میں تھے مسائل ہیں آج بھی
کیا کیا ہیں دردِ زندگی تم سے بیاں کروں
اک تم ہو بیوفائی کا پیکر جہان میں
میں تو وفا کو خون سے ہر دم جواں کروں
دکھ سکھ میں ساتھ میرا نبھاؤ نا عمر بھر
وشمہ میں کیسے روح کو نوکِ سناں کروں