زخمی دل ہے میرا پھر سے دل لگانے کی چاہت کیسے کروں
ابھی تو بھرے نہیں پہلی محبت کے زخم محبت کیسے کروں
چھوڑ گیا وہ پر اب بھی اعتبار اُس کے لوٹ آنے کا مجھے
رضامند میں بھی تھا وقت کے تقاضے پر شکایت کیسے کروں
گرتے حال ہوا میں شرمشار بھی جس کے زینت کی کا تیر
گر رسوائی اُسے ہے اپنی محبت کی زالالت کیسے کروں
کیوں میں بِے زبان ہوں زمانے کے تنزیہ بھرے سوالوں پر
مخالف محبت کے اپنے ہی ہیں خود ہی عداوت کیسے کروں
اے خدا کیا اب یہی ہے عبادتِ ہجر مسعود پر اب تیرا
چشم دردیدہ میں مبتلا کر دیا اب تیری عبادت کیسے کروں
کہتا ہے کوئی خود غرض مار گیا ہے تجھے چھوڑ جانے والا
زندہ میرے دل میں اب بھی وہ تو اُس کی شہادت کیسے کروں
درد ہے اپنے درد کا احساس اپنی کسی غزل سے ہی کروں
کیوں کر زبان سے زمانے کو عام اپنے جذبات کیسے کروں