زخم ایسا نشاں میں آئے گا
کوئی پھر سے گماں میں آئے گا
آج رستے بھی انتظار میں ہیں
وہ کوئے دلبراں میں آئے گا
خواب بھی کر گئے کہیں ہجرت
کون خالی مکاں میں آئے گا
وہ زمیں پر تو آ نہیں سکتا
وہ کہاں آسماں میں آئے گا
زینؔ یوں اس کو یاد کرتا ہوں
جیسے وہ امتحاں میں آئے گا