زخم دل پھر رسنے لگا ہے پر ذرا ذرا
دل سے وہ اترنے لگا ہے پر ذرا ذرا
جانے سے اس کے ہوی شام اداس
پر من اب بہلنے لگا ہے ذرا ذرا
کرتی ہیں گھائل یادیں اس کی
سیکھ لیا جینا ہم نے بھی پر ذرا ذرا
جدائ کا منظر تھا آبدیدہ بہت
بہہیگتا رہا رومال پر ذرا ذر
اے باد ی صبا پیام اس کو دیجیو
قرار دل کو آنے لگا ہے پر ذر
یونہی نہ زعم میں رہے وہ کہیں
قرار تھا وہ دل کا پر ذرا ذرا