زخم سینے کا حوصلہ کم ہے
پھر سے جینے کا حوصلہ کم ہے
روز ملنے کا تھا مزا اپنا
ہاں مہینے کا حوصلہ کم ہے
یونہی مرنے کو جی نہیں کرتا
اور جینے کا حوصلہ کم ہے
رات ڈھلنے کو ہے میرے ساقی
اب تو پینے کا حوصلہ کم ہے
صاف گوئ شعار ھے میرا
بغض و کینے کا حوصلہ کم ہے
زخم دیتےہؤے نہ سوچو تم
میرے سینے کا حوصلہ کم ہے
چھت پہ ہر روز ملنے والے کا
ایک زینے کا حوصلہ کم ہے
اتنی اجرت کے سامنے شاہین
اب پسینے کا حوصلہ کم ہے